Friday, 24 April 2020

اردو زبان اور بنیادی اسلامی تعلیم ↙️قسط اول

ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور ،اعظم گڑھ🕯
04/ مارچ ،2020 ، بدھ

 کیا آپ کے بچوں کے اسکول میں اردو زبان اور بنیادی اسلامی تعلیم کا بھی بندوبست ہے؟ 

 (پہلی قسط)


نوٹ : اس پیغام کے ساتھ کہ بچے وہاں پڑھائیں جہاں اردو زبان اور اسلامی تعلیم کا بھی انتظام ہو


اسکولوں میں پھر بہار کا موسم آیا ہے، ایڈمیشن اوپن ہو چکے ہیں اور کہیں ہونے والے ہیں، اور نئے تعلیمی سال کی کے احساس ہی سے بچوں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔ کتنا خوشنما ہوتا ہے وہ منظر جب گلیوں، راستوں اور سڑکوں پر ہنستے مسکراتے اسکولی بچوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں ،اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے بچوں سے بھرے ہوئے رکشے، اسکولی بسیں اور لاریاں شاہراہوں پر دوڑتی ہیں اور اسکول کی فضا ان کی شوخیوں، پُر مسرت صداؤں اور قہقہوں سے گونجتی ہے۔

کیا آپ کے بھی بچے ہیں؟ یا آپ کے گھرانے میں ایسے بچے ہیں جو اب اسکول جانے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں یا پہلے ہی سے پڑھ رہے ہیں؟ 

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ کو کسی اسکول میں ان کے ایڈمیشن کی فکر کرنی چاہیے اور اپنے گھر کے آس پاس واقع کسی بہتر اسکول کے بارے غور کرنا چاہیے۔

لیکن ذرا ٹھہریں اور یہ سوچیں کہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے آپ کا معیار کیا ہے؟ اور اس پر بھی غور کریں یا کسی سے معلوم کریں کہ  ایک مسلمان کی تعلیم کے حوالے سے اسلام کا معیارِ تعلیم کیا ہے؟ 

چلیے ہم ہی بتا دیتے ہیں کہ ایک مسلمان کی تعلیم کے حوالے سے اسلام کا معیارِ تعلیم کیا ہے؟ 

تعلیم کے حوالے سے اسلام یہ کہتا ہے کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کو مذہبِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ، اور اسلامی عقائد و معمولات اور ضروری احکام و مسائل سے آگاہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی اسے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس زمانے میں رائج علوم کی ضرورت بھر معلومات بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے زمانے کے تقاضوں سے لیس ہو، اور ترقی و پیش رفت میں دیگر معاشرے کے افراد سے پیچھے نہ رہے۔

بلا شبہ اسلام کے بنائے ہوئے معیارِ تعلیم ہی میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ جن ماں باپ نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اسلامی معیارِ تعلیم کو ترجیح دی ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ایسے اسکولوں کا انتخاب کیا ہے جہاں اسلام کے معیارِ تعلیم کے مطابق بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے وہ ماں باپ اپنے اس انتخاب میں کبھی غلط ثابت نہیں ہوۓ ہیں اور ان کے بچے دنیا میں دوسروں سے کہیں زیادہ نمایاں، ممتاز اور کامیاب رہے ہیں، اور کل آخرت میں بھی إن شاء الله سرخ رو رہیں گے۔ ساتھ ہی ان کے بچے خود ان کے لیے بھی سراپا رحمت ثابت ہوۓ ہیں۔

اگر آپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوں اور آپ کے احسان شناس، اطاعت شعار اور خدمت گزار رہیں تو آپ کو بھی ان کی تعلیم کے حوالے سے اسلام کا معیار تعلیم اپنانا چاہیے اور ان کے لیے کسی ایسے اسکول کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کا معیارِ تعلیم اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

اگر آپ نے اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اسلامی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا اور ان کی تعلیم کے لیے کسی غلط اسکول کا انتخاب کر لیا، جس کے نتیجے میں خدا نہ خواستہ وہ دین سے دور یا بے زار ہو گیے تو اس کے ذمے دار خود آپ ہوں گے اور اللہ کے غضب کے حق دار بھی۔

آپ ہندوستانی ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں رائج زبانوں میں 'اردو زبان' واحد ایسی زبان ہے کہ دینی معلومات پر مشتمل کتابوں کا زیادہ تر زخیرہ اسی زبان میں ہے، اس لیے دینی معلومات سے آگہی کے لیے اردو زبان کا سیکھنا ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کس طرح کے اسکول کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لہذا اپنے آس پاس واقع کسی ایسے ہی اسکول کا انتخاب کریں جہاں اردو زبان ضرور سکھائی جاتی ہو۔ ساتھ ہی وہاں دین کی بنیادی ضروری تعلیم بھی دی جاتی ہو۔

اب آپ اپنی آبادی کا جائزہ لیں اور پتہ لگائیں کہ آپ کی آبادی میں ایسا اسکول کہاں ہے؟

 اگر آپ کو کوئی ایسا اسکول مل جائے تو آپ کے بچوں کے لیے اس سے بہتر کوئی اور اسکول نہیں ہو سکتا ہے۔ لہذا اپنے بچوں کا ایڈمیشن وہیں کرائیں۔ 

ہم نے بہت سے ایسے مسلمان دیکھے ہیں جو اپنے بچوں کے دنیاوی لحاظ سے روشن مستقبل کے لیے ان کی دینی تربیت کے معاملے میں سخت غفلت برتتے ہیں، انھیں دینی تعلیم سے دور رکھتے ہیں اور ان کا داخلہ عیسائیت کی تبلیغ کے پیش نظر چلاۓ جا رہے کسی 'مشنری اسکول' میں کرا دیتے ہیں یا ہندو ازم کو فروغ دینے کے پیش نظر چلاۓ جانے والے 'ششو مندر ' میں ان کا ایڈمیشن کرا دیتے ہیں۔ اور پھر اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کا مستقبل دنیاوی لحاظ سے روشن ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ان کے وہ بچے اپنے مذہب سے دور یا بے زار ضرورہو جاتے ہیں۔

اتنا ضرور یاد رکھیں کہ مشنریوں اور ششو مندروں کے منتظمین لوگوں کو اپنے اسکولوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت ہوّا کھڑا کرتے ہیں اور اپنے ان اسکولوں میں بہتر تعلیم دیے جانے کا اتنا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ بچوں کے بہتر مستقبل کا خواب رکھنے والے بہت سے مسلمان ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ان ذبح خانوں میں ڈال دیتے ہیں جہاں مذہبی اعتبار سے ان کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

اور اگر مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں کے اسکولوں کی بنسبت ان مشنریوں اور ششو مندروں میں بہتر تعلیم دی جاتی ہے جو ان کے روشن مستقبل کی ضامن بھی ہے تو کیا آپ ایسی تعلیم کے لیے اپنے بچوں کا دین و مذہب لُٹ جانا گوارا کر لیں گے؟ اگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ کا رویہ یہی رہتا ہے تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کا مطمحِ نظر صرف دنیاوی ترقی اور خوش حالی بن کر رہ گیا ہے ، چاہے اس کے بدلے آپ کے بچوں کے دین وایمان کی متاع ہی کیوں نہ لٹ جائے، جب کہ ایک حقیقی مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ مٹادینے پر آمادہ ہوسکتا ہے، لیکن متاع ایمان کا سودا کسی بھی قیمت پر نہیں کرتا ہے۔

 'مشنری اسکول' یا 'ششو مندر' میں بچوں کو پڑھانے کا انجام کیا ہوتا ہے اس پر ہم آگے چل کر تفصیلی گفتگو کریں گے إن شاء الله۔ 

اور پھر کیا اسلامی تعلیم کے حامل اسکولوں میں ( اگرچہ وہاں کی تعلیم نسبتاً کمزور ہو ) پڑھنے والے بچے سب ناکام ہی ہوتے ہیں، سب کا مستقبل تاریک ہی ہوتا ہے؟ ایسا نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے۔ بچوں کی کامیابی اور ناکامی کا بڑا مدار ان کی اپنی محنت اور گھر والوں کی توجہ اور تربیت بھی ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں پر توجہ دیں گے اور ان پر نظر رکھیں گے کہ وہ وہ پڑھتے ہیں یا نہیں، محنت کرتے ہیں یا نہیں، اور ان کی تعلیم کے حوالے سے ان کے اسکول کے منتظمین اور اساتذہ سے رابطہ رکھیں گے، پڑھائی میں بچوں کی بہتر کارکردگی نہ ہونے پر اسکول والوں سے باز پرس کریں گے تو ان اسکولوں میں پڑھنے والے آپ کے بچے بھی ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کا مستقبل بھی ضرور روشن ہوگا۔ ہم نے تو ایسے کامیاب ترین لوگ بھی دیکھے ہیں جنھوں نے تعلیمی اعتبار سے خستہ حال سرکاری پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، لیکن اپنی محنت اور لگن کے باعث آج وہ کامیابی کی انتہائی منزلوں پر ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ بچوں کی کامیابی اور ناکامی میں اسکول اور اس کے اساتذہ کے ساتھ بچوں کی اپنی محنت اور ماں باپ یا سرپرست کی توجہ اور تربیت کا بھی بنیادی کردار ہوتا ہے۔

 بچوں کی کامیابی و ناکامی میں اسکول، اساتذہ اور سرپرستوں کی توجہ اور تربیت کی اہمیت پر ہم آگے چل کر کچھ تفصیلی گفتگو کریں گے إن شاء الله۔

لہذا آپ یہ خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دیں کہ اسلامی تعلیم کے حامل اسکولوں میں بچوں کی بہتر تعلیم نہ ہو پائے گی، کیونکہ وہاں کی تعلیم نسبتاً کمزور ہے، جب کہ مشنریوں اور ششو مندروں میں پڑھانے سے ان کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔ اپنے بچوں کو مشنریوں اور ششو مندروں میں پڑھانے والوں کو خود اپنے بارے میں بھی غور کر لینا چاہیے کہ مشنریوں اور ششو مندروں میں اپنے بچوں کو ڈال کر کہیں وہ خود اپنی ذمہ داریوں سے تو نہیں بھاگ رہے ہیں، اور انھیں خود اپنے ایمان و اسلام کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ خود ان کے اندر اسلامی مزاج اور مذہبی پختگی ہے یا نہیں۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
دوسری قسط پڑھنے کے لیے لفظ ⬇️جاری⬇️ پر دبائیں

(  جاری.......... )
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹




No comments:

Post a Comment

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز
کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا
.مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

برائے مہربانی مفید مشوروں سے نوازیں