Saturday, 25 April 2020

سڑکوں بس اڈوں پر لوگوں کا اژدھام

ابو رَزِین مولانا  محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ 🕯
29 /مارچ ، اتوار 2020

کورونا وائرس اور سڑکوں، بس اڈوں پر لوگوں کی بھیڑ


دلی، این سی آر کے بارڈر پر غریب مزدوروں کا انبوہ عظیم دیکھ کر رونا آ گیا، احساس ہوا کہ ان غریبوں کی پرواہ کسی کو نہیں، جس وائرس سے دنیا بھر کو خوف دلایا جا رہا ہے ایسا لگا کہ شاید اس وائرس کا خطرہ ان غریب مزدوروں کو نہیں ہے، جبھی تو ان کی فکر کرنے والا کوئی نہیں ہے، جبھی تو کوئی اسپیشل انتظام کیے بغیر انھیں بسوں میں بھر کر ان کے وطن بھیجا جا رہا ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ جو حکومت اس وائرس کی روک تھام کو لے کر اس قدر حساس اور فکر مند ہے کہ اس نے ہر چوراہے، ہر گلی اور ہر مسجد پر پولیس کا عملہ مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ گھر سے باہر نکلنے والوں پر لٹھ بازی کی پریکٹس کرے اور اس انوکھے ڈھنگ سے وائرس کو پھیلنے سے روک سکے، اس حکومت کا احساس ذمہ داری اب کہاں گیا؟ کیا اس بھیڑ سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے؟ جن گاڑیوں میں بھر بھر کر ان کو ان کے وطن لے جایا جائے گا کیا ایسا ممکن نہیں کہ ان میں سے کوئی وائرس زدہ ہو اور اس کی وجہ سے دوسرے بھی متاثر ہو جائیں؟

ضرور خطرہ ہے۔ جو نظریہ لے کر دنیا چل رہی ہے، جس نظریے کے تحت ملک میں لاک ڈاؤن ہوا ہے اور جس وائرس کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر عام لوگوں کی پٹائی، تذلیل و توہین کا کارنامہ پولیس کا عملہ انجام دے رہا ہے وہ خطرہ یہاں پورے طور سے پایا جا رہا ہے۔ بلکہ اندیشہ تو یہاں تک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی وائرس زدہ ہوا تو وہ جس علاقے میں جاۓ گا وہاں یہ وائرس پھیلے گا اور پورا علاقہ متاثر ہو جاۓ گا جس کی روک تھام کر پانا حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

تو پھر حکومتی سطح پر ان کے لیے کوئی معقول انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ انھیں ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے کوئی اسپیشل انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ جس طرح ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں  کو اسپیشل انتظامات کے ساتھ واپس ملک لایا گیا تھا اسی طرح ان کے لیے کوئی معقول انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟

شاید غریب ہونا ہی جرم ہے، شاید غریبوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، جو غریب مزدور اپنی محنت سے اپنی کمپنی، یا فیکٹری کو ترقی دیتا ہے، ملک کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرتا ہے وہی غریب ایسے حالات میں در بدر کی ٹھوکر کھاتا ہے اور اس کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا ہے، نہ فیکٹری اور کمپنی کے مالکان کو فکر ہوتی ہے اور نہ اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو۔ آج مختلف صوبوں کی سرحدوں پر نظر آنے والے مزدوروں کے جتھے کچھ یہی داستان بیان کر رہے ہیں، سڑکوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل اپنے وطن لوٹنے والے یہی قصہ سنا رہے ہیں۔

خدا کرے یہ بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچ جائیں، خدا کرے یہ غربت کے ساتھ وائرس کی مار سے محفوظ رہیں، خدا کرے جو پیدل جا رہے ہیں انھیں کھانے پینے کی اشیاء ملتی رہیں، خدا کرے جس آبادی سے وہ گزریں آبادی والے ان کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھیں۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
   شہر  میں  مزدور  جیسا  در  بہ در   کوئی  نہیں
  جس نے سب کے گھر بناۓ اس کا گھر کوئی نہیں

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹



No comments:

Post a Comment

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز
کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا
.مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

برائے مہربانی مفید مشوروں سے نوازیں