Monday, 27 April 2020

خدمتِ انسانیت مسلمان نہیں چھوڑیں گے کچھ بھی ہو ؟


ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارک پور ،اعظم گڑھ 🕯
08 / اپریل، بدھ /2020 /


چاہے جتنا بدنام کیا جائے، پر انسانیت کی خدمت کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے مسلمان


اسلام اور انسانیت کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اسلام انسانیت کا محافظ ہے۔ مذہبِ اسلام کی تعلیمات اور ہدایات کی ابتداء ہی انسانیت سے ہوتی ہے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسانیت کے ناطے ہر آدمی کا ایک دوسرے پر کچھ حق ہے اور ہر آدمی ایک دوسرے کے لیے قدر، عزت اور پیار کے قابل ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 

 أحبُّ الناس إلى الله أنفعهم للناس." ( رواه الطبرانی في الأوسط و الصغير )

ترجمہ : اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا انسان وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچاۓ۔

اسی لیے اسلام کا یہ قانون ہے کہ مصیبت، پریشانی، بیماری، بھوک، پیاس یا کسی ناگہانی آفت کے موقعے پر ہر انسان کی مدد کی جائے گی۔ انسانوں پر رحم و مروت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم اسلام اس اسلوب میں دیتا ہے :

الراحمون يرحمهم الرحمن. ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء. ( رواه الترمذي في جامعه )

ترجمہ : رحم کرنے والوں پر خداۓ رحمٰن رحم فرماتا ہے۔ تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔

اسلامی تعلیمات سے آشنا مسلمانانِ ہند نے کورونا وائرس کی مہاماری کے اس نازک دور میں انسانیت کے لیے جو خدمات پیش کی ہیں اور کر رہے ہیں وہ یقیناً لائق ستائش اور قابل تقلید ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے اس کردار سے انسانیت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے اور مخلوق خدا کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور سچائی تو یہ ہے کہ اپنے اس عمل کے ذریعہ درحقیقت وہ انسانیت اور مذہب دونوں ہی کی خدمت کررہے ہیں۔ اس لیے ان کے اعمال کو دونوں نظریوں سے دیکھا اور سراہا جاسکتا ہے۔

ہندوستانی مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر غریب اور ہر حاجت مند کی مدد کر رہے ہیں، ان تک ان کی ضرورت کا سامان پہنچا رہے ہیں، راشن بانٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ بدن چھپانے کے لیے کپڑے اور پیروں پر پہننے کے لیے چپل دے کر لوگوں کی ضرورت پوری کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی بہت سی ملی تنظیمیں اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کی مدد مہیا کر رہی ہیں۔ صاحبِ ثروت مسلمان اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے قائم کردہ ریلیف فنڈ میں عطیہ دے رہے ہیں اور وزیراعظم کے قائم کردہ ریلیف فنڈ میں بھی چندہ دے رہے ہیں۔ مدارس کے اساتذہ اور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں سے اچھی خاصی رقم دے کر کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ 

ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ بڑے شہروں میں کام کرنے والے مزدور جب کام بند ہو جانے کے سبب بڑی کس مپرسی کے عالم میں اپنے اپنے وطن واپس ہو رہے تھے تو مسلم آبادیوں میں پہنچنے پر مسلمانوں نے ان کا استقبال کیا، ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بندوبست کیا اور ہر طرح انھیں تسلی دی۔ مسلمانوں کی محبت اور ان کا حسن سلوک دیکھ کر وہ غیر مسلم مزدور اس قدر متاثر ہوئے، کہ آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ سراونی، عارف پور، ہاپوڑ کے مسلمانوں کو اس حوالے سے بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ان کے گاؤں میں ہندو مزدوروں کے پہنچنے پر ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کیا۔

اکبر پور ،یو پی کی رہنے والی گڑیا کی انسانی ہمدردی بھی دنیا نے دیکھی۔ اس گڑیا کا نام تحرین ہے، بشر خان کی بیٹی ہے۔ اس چھوٹی سی بچی کے احساس ذمہ داری اور جذبہ قربانی کو ہمارا سلام کہ اس نے مہینوں سے اپنے گولک میں جو پیسے جمع کیے تھے،  گولک توڑ کر اس نے سارے پیسے لیے اور پاس کی پولیس چوکی جا پہنچی اور وہاں کے عہدے دار امت سنگھ کو پیسے دیتے ہوئے بولی: لیجیے میرے ان پیسوں سے غریبوں کو کھانا کھلا دیجیے گا۔

یہ ایک گڑیا ہی نہیں اس طرح کا ایثار کرنے والے بہت سے بچے ہیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی جمع کی ہوئی پونجی غریبوں پر خرچ کر دی۔

دنیا کے سامنے ایسے مسلمان بھی آۓ جنھوں نے حج و عمرہ کے لیے برسوں سے جمع کی ہوئی پونجی کورونا وائرس کی اس مہاماری کے سبب ضرورت مندوں میں خرچ کر دی اور دنیا کو یہ بتایا کہ مسلمان کسی کو پریشان حال نہیں دیکھ سکتا اور اگر اس کے سماج میں کوئی حاجت مند ہے تو وہ اس کی حاجت براری کے لیے اپنی گاڑھی کمائی بھی دان کر سکتا ہے۔ جموں کشمیر کی خالدہ بیگم نے حج کے لیے جمع کیے ہوئے پانچ لاکھ روپے دان کر کے متعصب میڈیا اور چڈھی دھاریوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے جو کشمیریوں کو آتنکی کہتے نہیں تھکتے۔

ہم نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ مزدوروں سے بھری ہوئی بسیں جب کسی مسلم آبادی سے گزرتی ہیں تو اس آبادی کے مسلم نوجوان سڑکوں پر کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھانے کے پیکٹ اور پانی کی بوتلیں ہیں، جیسے ہی کوئی بس قریب آتی ہے وہ اسے رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان کھانے کے پیکٹ اور پانی کی بوتلیں تقسیم کرتے ہیں، جو بھی مانگتا ہے سب کو دیتے ہیں۔

واللہ ایسے نظارے دیکھ کر خوشی سے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور دل مچل کر کہتا ہے کہ اے قوم مسلم، بخدا تو ایک خوش قسمت قوم ہے، واللہ تو ایک غریب پرور قوم ہے، حقا، تو سب سے محبت کرنے اور ہر ایک کو پیار دینے والی قوم ہے۔ اللہ کی قسم، دنیا تجھے چاہے جتنا بدنام کرے، تیری اصل صورت کبھی مسخ نہ ہوگی اور دشمن لاکھ کوشش کر لے تیرا حقیقی رنگ کبھی  نہ جاۓگا اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے والے تیرے حقیقی رنگ سے تیری سچائی ضرور پہچان لیں گے۔
  

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
   تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
   یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے 

      فیض  ہوگا  جہاں  میں  عام  مرا
      خدمتِ   خلق    ہو گا   کام    مرا
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


کورونا وائرس, لاک ڈاؤن اور قانونِ حکومتِ ہند


ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری✍️
🕯استاذ  : الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ 🕯
06 / اپریل ،دوشنبہ/ 2020

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن - جب اڑ گئیں قانون کی دھجیاں


احمق لوگ دوسروں کی زندگیوں کو کس طرح خطرے میں ڈالتے ہیں اس کے کئی نمونے ہمیں کل رات اس وقت دیکھنے کو ملے جب پی ایم مودی کی اپیل پر ملک بھر میں دیپ جلاۓ جا رہے تھے۔

پی ایم نے تو صرف دیپ اور موم بتی جلانے کی اپیل کی تھی لیکن احمقوں کو تو گویا جشن منانے کا موقع ہی مل گیا اور پھر پی ایم کی اپیل کا مذاق اس طرح اڑایا گیا کہ پورا ملک پٹاخوں کی آواز سے گونج اٹھا اور ایسا محسوس ہوا کہ گویا دیوالی کا تہوار آج ہی ہو۔

صرف پٹاخے پھوڑ کر ہی پی ایم مودی کی اپیل کا مذاق نہیں اڑایا گیا بلکہ کچھ لوگوں نے تو حد ہی پار کر دی اور قانون کی دھجیاں ہی اڑا دیں۔ آئیے دیکھتے ہیں لاک ڈاؤن کے ساتھ کیے گئے اس مذاق کے کچھ نمونے


*01*

  پانچ اپریل کی رات 9 بجتے ہی جب پی ایم مودی کی اپیل پر لوگ اپنے اپنے گھروں میں دیے اور موم بتیاں جلا رہے تھے اسی وقت تلنگانہ کے بی جے پی ایم ایل اے راجہ سنگھ اپنے حامیوں کے ساتھ ہاتھوں میں مشعل لیکر سڑک پر اتر گئے۔

 بی جے پی ایم ایل اے نے اس دوران سوشل ڈسٹینسنگ کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا۔ ملک بھر میں اس وقت مکمل لاک ڈاؤن ہے، لیکن راجہ سنگھ ہیں کہ انھوں نے پی ایم مودی کی نصیحت کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے خطرے کو بھی تاک پر رکھ دیا۔

راجہ سنگھ نے اپنے حامیوں کے ساتھ مشعل جلوس نکالا اور گو بیک چینی وائرس کے نعرے بھی لگائے۔ لیکن اس دوران انہوں نے پی ایم مودی کی اس نصیحت کی ہی دھجیاں اڑی دیں جس میں پی ایم نے کہا تھا کہ لوگ دیا اور کینڈل جلائیں لیکن سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھیں۔

لیکن راجہ سنگھ پر پی ایم مودی کی اپیل کا ذرا بھی اثر نظر نہیں آیا۔ راجہ سنگھ نہ صرف حامیوں کی بھیڑ لیکر سڑک پر اتر گئے، بلکہ کورونا کے خلاف ان کی اس کوشش میں سوشل ڈسٹینسنگ کا نام و نشان بھی نظر نہیں آیا۔

راجہ سنگھ نے اپنے اس مشعل جلوس سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چھہ فٹ کی دوری بے وجہ کی بات ہے۔ یہ دوری تو باقی لوگوں کے لیے ہے، نہ کہ مجھ جیسے ایم ایل اے کے لیے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ گھر میں رہو نہیں تو دیکھتے ہی گولی چلانے کے آدیش دینے پڑ جائیں گے۔ مگر افسوس کہ جب راجہ سنگھ نے مشعل لیکر جلوس نکالا اس وقت تلنگانہ پولس کہیں نظر نہیں آئی۔ شاید راجہ کے لیے کوئی قانون نہیں ہوتا ہے۔

*02* 

کورونا وائرس کے خلاف پی ایم مودی کی اپیل پر اتر پردیش کے بلرام پور ضلعے کی بی جے پی مہیلا مورچے کی ضلع صدر منجو تیواری کو اتنا جوش آیا کہ انہوں نے کورونا کو بھگانے کے لیے ہوائی فائرنگ تک کر دی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جوش میں آ کر فائرنگ کر دی تھی۔ کمال تو یہ ہے کہ انھوں نے اس کی ویڈیو بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کر دی جسے بہت سے لوگوں نے شیئر بھی کیا اور اس طرح یہ ویڈیو وائرل ہو گیا۔حالانکہ اس پر فضیحت ہونے کے بعد انہوں نے اب اپنی اس حرکت کے لیے معافی مانگی ہے۔

بی جے پی مہیلا مورچہ کی ضلع صدر منجو تیواری نے اپنی صفائی میں لوگوں سے معافی مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل جب میں گھر سے باہر نکلی تو مجھے بالکل دیوالی جیسا ماحول لگا۔ اس سے میں جوش میں آ گئی اور فائرنگ کر دی۔ میں اس کے لئے بہت شرمندہ اور لجت ہوں اور جب تک زندہ رہوں گی پھر کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گی۔


*03*

 اتوار کی رات کو دیے جلانے کے ساتھ ہی جے پور میں لوگوں نے آسمان میں روشنی کے بیلون اڑائے، جس کے نتیجے میں ویشالی نگر میں ایک گھر پر روشنی کا ایک بیلون گر گیا اور گھر میں آگ لگ گئی۔ اور راجستھان کی راجدھانی میں آگ لگنے کے سبب ہڑکمپ مچ گیا۔

یہ حادثہ ویشالی نگر کے ہنومان ایکسٹینشن کا ہے۔ جہاں بیلون گرنے سے گھر پوری طرح جل گیا۔ وہیں اس گھر میں لگی ہوئی آگ کے سبب پاس کا مکان بھی آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ حالانکہ موقع پر پہنچی فائر بریگیڈ کی گاڑیوں نے جلد ہی آگ پر قابو کر لیا، ورنہ ایک بڑی انہونی ہو سکتی تھی۔

*04*

  تلنگانہ کے علاوہ بی جے پی ایم ایل اے سے جڑا ایک حادثہ مہاراشٹر کے وردھا سے بھی سامنے آیا ہے۔ یہاں بی جے پی ایم ایل اے 'داداراؤ کیچے' کے مکان پر بھاری بھیڑ نظر آئی۔

دراصل داداراؤ کیچے کا جنم دن تھا، اس موقع پر انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران پریشان لوگوں کو راشن بانٹنے کا فیصلہ لیا۔ لیکن جب ان کے مکان پر ضرورت مند لوگ پہنچے تو تصویر ڈراؤنی نظر آئی۔

ایم ایل اے کے مکان پر بڑی تعداد میں مرد و زن راشن لینے کے لیے پہنچے۔ یعنی ایک طرف جہاں پورا دیش سوشل ڈسٹینسنگ کا پالن کر رہا ہے اور کورونا سے بچاؤ کے لیے یہ سب سے اہم طریقہ بتایا جا رہا ہے، وہیں راشن بانٹنے کے نام پر بی جے پی ایم ایل اے کے گھر پر یہ قانون پوری طرح ٹوٹتا ہوا دکھائی دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں ایسے سماج دشمن عناصر رہے جنھیں کورونا وائرس جیسی ہلاکت خیز وبا کے دوران اس قسم کی مستی سوجھ رہی ہے تو کیا ہم اپنے ملک کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچا پائیں گے؟ اور کیا ایسے ناعاقبت اندیش لوگ کبھی سمجھ پائیں گے کہ ان  کارروائیوں کی ضرورت نہیں ہے؟


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


Saturday, 25 April 2020

نشانے پر ایک ہی قوم کیوں ؟

ابو رَزِین مولانا  محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور ،اعظم گڑھ🕯
02 /اپریل، 2020 ،جمعرات 

نشانے پر صرف ایک خاص قوم ہی کیوں؟


دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ یہاں سے 2361 لوگوں کو نکالا گیا ہے۔

اسی دوران دہلی پولس نے دہلی ہی کے 'مجنو کا ٹیلہ گرودوارہ' میں موجود لوگوں کو نکالنے کی کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔

میڈیا کے ذریعے تبلیغی مرکز کے بارے میں آپ کو بہت ساری اطلاعات مل چکی ہوں گی، آئیے اب گرودوارے کے بارے میں بھی کچھ جانتے ہیں۔

دہلی کے مجنو کے ٹیلہ میں واقع گوردوارے میں سکھ قوم کے لوگ پھنسے ہیں۔ ان میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ دہلی پولس اور پنجاب گورنمنٹ کے مقررہ افراد کے ذریعے ان لوگوں کو نکالنے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ بسوں میں بھرکر سب کو نہرو وہار کے ایک اسکول میں شفٹ کیا جا رہا ہے۔ اسی اسکول میں کوارنٹین سینٹر بنایا گیا ہے۔

دہلی سکھ گرودوارہ انتظامیہ کمیٹی کی لاپرواہی کے چلتے تاریخی گرودوارہ مجنوں ٹیلہ صاحب میں پچھلے تین دنوں سے 300 سے زیادہ لوگ پنجاب میں اپنے گھروں کو جانے کی آس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، ایسے آثار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دہلی سکھ گردوارہ انتظامیہ کمیٹی کے ذریعے دہلی میں پھنسے پنجاب کے لوگوں کو امرتسر تک بھیجنے کے لیے ایک اپیل کی گئی۔ ساتھ ہی دو دو بسیں بھیجنے کا اعلان کیا گیا۔ بس کو بھیجنے کا وقت 29 مارچ کو صبح 6 بجے بتایا گیا تھا۔

اس کے بعد دہلی میں پھنسے پنجاب کے رہنے والے لوگ بڑی تعداد میں گوردوارہ مجنو ٹیلہ صاحب پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد کمیٹی اسٹاف نے باقاعدہ پنجاب جانے کے امیدوار لوگوں کے نام اور آدھار کارڈ نمبر رجسٹرڈ کیے اور لگ بھگ 400 لوگوں کی تعداد سامنے آئی۔

زیادہ بھیڑ دیکھ کر ہڑبڑی میں کمیٹی نے دو بسوں کے ذریعے گرودوارے سے کچھ لوگوں کو روانہ کر دیا۔ ساتھ ہی 300 سے زیادہ لوگوں کو یہ دلاسہ دیا گیا کہ آپ گرودوارے کے لنگر حال میں رکیں، یہاں لنگر کی پورا انتظام ہے، دوسرے دن بسوں کا انتظام کرکے آپ سب کو بھیجا جائے گا۔ لیکن 29 مارچ کو بسوں کا کوئی انتظام نہیں ہو پایا۔

30 مارچ کو کمیٹی کے صدر ' منجندر سنگھ سرسا' نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ' کیپٹن امریندر سنگھ' کو ٹویٹ کرکے گرودوارہ مجنو ٹیلہ میں رکے ہوئے پنجاب کے لوگوں کو پنجاب واپس لے جانے کے لیے بسیں دینے کی مانگ کی۔ ساتھ ہی ٹویٹ میں کچھ فوٹوز بھی بھیجے جن میں بھاری بھیڑ نظر آ رہی تھی۔ 

31 مارچ کو صدر ' سرسا' نے ایک نیا ٹویٹ کرتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلیٰ' اروند کیجریوال' سے ان لوگوں کی میڈیکل جانچ کی مانگ کر دی۔ سرسا نے کہا کہ گرودوارہ مجنو ٹیلہ میں پھنسے ہوئے لوگوں میں سے کچھ کے اندر کورونا بیماری کی علامتیں نظر آ رہی ہیں اس لیے گورنمنٹ ان کی میڈیکل جانچ کروا کر ان کو ان کے گھروں تک بھیجے۔

دہلی کمیٹی کے سابق صدر' منجیت سنگھ جی،کے' نے اس حادثے کو کمیٹی کی سخت لاپرواہی قرار دیتے ہوئے کہا کہ منجندر سنگھ سرسا نے پہلے ان لوگوں کو خود گرودوارے میں بلایا، تین دن ایک جگہ ان کو اکٹھے رکھا اور اب ان کو کورونا کا مشتبہ بتا کر ان کو ذہنی طور پر پریشان کیا جا رہا ہے۔

'جی، کے' نے مزید کہا کہ اگر سرسا کے پاس لوگوں کے بھیجنے کے ذرائع نہیں تھے، تو کیوں 400 لوگوں کو بلاکر یکجا کیا گیا۔ 'جی، کے' نے دعویٰ کیا کہ نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے مرکز معاملے کا خلاصہ سامنے آنے کے بعد سرسا ڈر گئے ہیں اور ذمے داری سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی میں بھی کورونا کی علامات پائی جاتی ہیں تو اس کے لیے سرسا ذمے دار ہوں گے۔

مجنوں ٹیلہ کے اس حادثے کو ہم نے اتنی تفصیل کے ساتھ اس لیے بیان کیا تاکہ آپ مکمل حالات سے آگاہ ہو سکیں اور تبلیغی مرکز کے حادثے کے ساتھ صحیح طور پر موازنہ کر سکیں۔

اب آپ اندازہ کریں کہ نیوز چینلوں اور اخبارات کے مطابق جو لاپرواہی تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہوئی ہے بالکل ویسی ہی لاپرواہی گوردوارے میں بھی ہوئی ہے۔ لیکن متعصب میڈیا نے تبلیغی جماعت کے بہانے ایک خاص قوم کو ہی نشانہ بنا کر اس کے خلاف دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کیا اور اس واقعے کو اتنا اچھالا کہ بہت سے سادہ لوح شہری بھی ان کے جال میں پھنس گئے اور وہ خاص قوم پوری کی پوری ان کے نشانے پر آ گئی اور پوری قوم ہی غیر ذمہ دار قرار دے دی گئی جو حد درجہ افسوس ناک، شرم ناک، اور قابل مذمت ہے۔

زعفرانی میڈیا نے اپنے اس پروپیگنڈے کے ذریعے پورے ملک کو گمراہ کرنے اور ہندوستانی شہریوں میں نفرت پھیلانے کی جو مذموم کوشش کی ہے اس کے لیے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ہند کے ذریعہ ایسے ٹی-وی چینلوں اور اخبارات کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے اور انھیں ان کے کیے کی سزا دی جائے لیکن ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ان سے لگتا یہی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا اور نفرت کے یہ پجاری اسی طرح نفرت کا کھیل کھیلتے رہیں گے۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں


ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوی ✍️
🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارک پور ،اعظم گڑھ🕯
31 / مارچ ، 2020 ، منگل

ہم اللہ کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے


 ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ہیں یہ ایمان افروز جملہ ایک ستم رسیدہ مومن اس بادشاہ کے سامنے کہتا ہے جس کے یہاں وہ پناہ لینے آیا ہوا ہے۔

کون.....ہے.....وہ.......؟


 تاریخ اس بندۂ مومن کو جعفر بن ابی طالب کے نام سے پکارتی ہے۔ اسلام کا ابتدائی دور ہے، رب کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے بہت تھوڑے ہیں، عرب کے مرکزی شہر ' مکہ' میں محصور ہیں، ایک خدا کو ماننے کا نتیجہ ہے کہ مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ 

ان غریب مسلمانوں کو ہر طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اتنا ستایا گیا کہ مکہ کی سر زمین ان کے لیے تنگ کر دی گئی، انھیں اتنا مارا گیا کہ وہ مظلوم مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور ہجرت کر جانے پر مجبور ہو گئے اور ظالموں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر جان سے بھی زیادہ عزیز اپنا وطن چھوڑ ایک اجنبی ملک میں جا کر پناہ گزیں ہوئے۔

اَسِّی سے زیادہ مجبور و مظلوم مسلمانوں کا یہ قافلہ جس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ملک حبشہ پہنچتا ہے، اور ربِ کائنات کی ایسی تدبیر کہ ملکِ حبشہ کا بادشاہ مسلمانوں کے اس قافلے کو اپنے دربار شاہی میں حاضر کیے جانے کا فرمان جاری کرتا ہے۔

قافلہ دربار شاہی میں حاضر ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قافلے میں ایک شخص ایسا ہے جو پیش پیش ہے، قافلے والوں نے اپنی ترجمانی کے لیے اسے اپنا نمائندہ منتخب کر رکھا ہے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں بے خوف داخل ہوتا ہے اور شاہی دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کے سامنے سر نہیں جھکاتا ہے، اس کا سجدہ نہیں کرتا ہے، بلکہ سر اٹھا کر اسے السلام علیکم کہتا ہے۔

کون ہے یہ بے باک مسلمان جو اس کس مپرسی کے عالم میں بھی اپنے دین کے احکام نہیں بھولتا ہے، اپنا عقیدہ خراب نہیں کرتا ہے، اپنے دماغ کو مغلوبیت کی خاک سے آلودہ نہیں کرتا ہے، جس بادشاہ کے یہاں پناہ لینے گیا ہے اس کے یہاں کا راہ و رسم بھی نہیں اپناتا ہے۔

سنو، تاریخ بتاتی ہے کہ اس بطل عظیم کا نام ہے جعفر بن ابی طالب اور اس کے سامنے ہے اس وقت کی دنیا کا ایک باجبروت بادشاہ نجاشی۔

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اس مومنانہ جسارت پر بادشاہ کے درباری ناراض ہو جاتے ہیں ، سجدہ نہ کرنے کو بادشاہ کی گستاخی گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا تم شاہی دربار کے آداب سے بھی آشنائی نہیں رکھتے؟ آخر تم نے بادشاہ کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ 

مرد مومن حضرت جعفر بن ابی طالب کی طرف سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے

 ہم اللہ کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے ہادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اہلِ جنت کے درمیان ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت تحیت کے کلمات یہی سلام کے الفاظ ہیں۔ سو ہم بھی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کے الفاظ کہتے ہیں۔ آج بادشاہ کے دربار میں بھی ہم نے انھیں الفاظ میں سلام پیش کیا ہے۔

اس کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے پوچھنے پر اسلام کی خوبیاں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے۔

پھر کیا تھا اللہ کی غیبی مدد شامل حال ہوئی اور بادشاہ حضرت جعفر کی تقریر سے اتنا متاثر ہوا کہ درباریوں کی مخالفت کے باوجود اس نے مسلمانوں کو اپنے یہاں پناہ دی اور بعد میں خود بھی مسلمان ہو کر صحابۂ کرام کے مقدس زمرے میں شامل ہو گئے۔ رضي الله عنهم أجمعين. 
( تفصیل کے لیے دیکھیے : زرقانی علی المواهب، ج: ۱، ص: ۲۸۸، اور سیرت ابن کثیر و غیرہ کتب سیر )

سبق : حالات کیسے ہی مایوس کن کیوں نہ ہوں، اور ماحول کتنا ہی مخالفانہ کیوں نہ ہو، ایک مسلمان کو اپنے رب کی طرف سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، خدا پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیے، اپنی تہذیب چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کی غیبی تدبیر سے مایوس کن حالات امید افزا ماحول میں تبدیل ہو جائیں گے اور مخالفانہ ماحول سازگار صورت حال میں بدل جائے گا۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹



سڑکوں بس اڈوں پر لوگوں کا اژدھام

ابو رَزِین مولانا  محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ 🕯
29 /مارچ ، اتوار 2020

کورونا وائرس اور سڑکوں، بس اڈوں پر لوگوں کی بھیڑ


دلی، این سی آر کے بارڈر پر غریب مزدوروں کا انبوہ عظیم دیکھ کر رونا آ گیا، احساس ہوا کہ ان غریبوں کی پرواہ کسی کو نہیں، جس وائرس سے دنیا بھر کو خوف دلایا جا رہا ہے ایسا لگا کہ شاید اس وائرس کا خطرہ ان غریب مزدوروں کو نہیں ہے، جبھی تو ان کی فکر کرنے والا کوئی نہیں ہے، جبھی تو کوئی اسپیشل انتظام کیے بغیر انھیں بسوں میں بھر کر ان کے وطن بھیجا جا رہا ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ جو حکومت اس وائرس کی روک تھام کو لے کر اس قدر حساس اور فکر مند ہے کہ اس نے ہر چوراہے، ہر گلی اور ہر مسجد پر پولیس کا عملہ مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ گھر سے باہر نکلنے والوں پر لٹھ بازی کی پریکٹس کرے اور اس انوکھے ڈھنگ سے وائرس کو پھیلنے سے روک سکے، اس حکومت کا احساس ذمہ داری اب کہاں گیا؟ کیا اس بھیڑ سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے؟ جن گاڑیوں میں بھر بھر کر ان کو ان کے وطن لے جایا جائے گا کیا ایسا ممکن نہیں کہ ان میں سے کوئی وائرس زدہ ہو اور اس کی وجہ سے دوسرے بھی متاثر ہو جائیں؟

ضرور خطرہ ہے۔ جو نظریہ لے کر دنیا چل رہی ہے، جس نظریے کے تحت ملک میں لاک ڈاؤن ہوا ہے اور جس وائرس کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر عام لوگوں کی پٹائی، تذلیل و توہین کا کارنامہ پولیس کا عملہ انجام دے رہا ہے وہ خطرہ یہاں پورے طور سے پایا جا رہا ہے۔ بلکہ اندیشہ تو یہاں تک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی وائرس زدہ ہوا تو وہ جس علاقے میں جاۓ گا وہاں یہ وائرس پھیلے گا اور پورا علاقہ متاثر ہو جاۓ گا جس کی روک تھام کر پانا حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

تو پھر حکومتی سطح پر ان کے لیے کوئی معقول انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ انھیں ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے کوئی اسپیشل انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ جس طرح ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں  کو اسپیشل انتظامات کے ساتھ واپس ملک لایا گیا تھا اسی طرح ان کے لیے کوئی معقول انتظام کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟

شاید غریب ہونا ہی جرم ہے، شاید غریبوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، جو غریب مزدور اپنی محنت سے اپنی کمپنی، یا فیکٹری کو ترقی دیتا ہے، ملک کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرتا ہے وہی غریب ایسے حالات میں در بدر کی ٹھوکر کھاتا ہے اور اس کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا ہے، نہ فیکٹری اور کمپنی کے مالکان کو فکر ہوتی ہے اور نہ اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو۔ آج مختلف صوبوں کی سرحدوں پر نظر آنے والے مزدوروں کے جتھے کچھ یہی داستان بیان کر رہے ہیں، سڑکوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل اپنے وطن لوٹنے والے یہی قصہ سنا رہے ہیں۔

خدا کرے یہ بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچ جائیں، خدا کرے یہ غربت کے ساتھ وائرس کی مار سے محفوظ رہیں، خدا کرے جو پیدل جا رہے ہیں انھیں کھانے پینے کی اشیاء ملتی رہیں، خدا کرے جس آبادی سے وہ گزریں آبادی والے ان کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھیں۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
   شہر  میں  مزدور  جیسا  در  بہ در   کوئی  نہیں
  جس نے سب کے گھر بناۓ اس کا گھر کوئی نہیں

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹



کیمپ بند دہلی فساد متاثرین مانگنے پر مجبور

ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
 🕯استاذ : الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ 🕯
27 / مارچ ، جمعہ 2020

کورونا وائرس : ریلیف کیمپ بند، گھر لوٹے دہلی فساد متاثرین بھیک مانگنے کو ہیں مجب


دہلی فسادات میں اپنا سب کچھ کھو دینے والوں کی پریشانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، ان مظلوموں کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ کورونا وائرس نے ان کے سامنے مصیبتوں کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔

کورونا وائرس کے چلتے پورا ملک لاک ڈاؤن ہے، ایسے میں دہلی فساد متاثرین کے لیے قائم کیے گئے ریلیف کیمپ بھی بند کیے جا رہے ہیں اور فساد متاثرین کو اپنے اپنے گھر جانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی دہلی کا سب سے بڑا ریلیف کیمپ عید گاہ بھی ہے جسے کورونا وائرس کے چلتے بند کر دیا گیا ہے اور فساد متاثرین کو ان کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔

یہ متاثرین اپنے گھر تو لوٹ آئے ہیں لیکن یہاں سب کچھ جل چکا ہے، ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اس لیے اب وہ لوگ اپنے پڑوسیوں سے بھیک مانگنے کو مجبور ہیں۔

این ڈی ٹی وی انڈیا کی نیوز کے مطابق ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، فساد میں گھر کا سارا ساز و سامان جل چکا ہے اور اب پاس میں پیسے بھی نہیں ہیں اور لاک ڈاؤن کے سبب یہ لوگ گھر سے باہر نکل بھی نہیں سکتے کہ محنت مزدوری کر کے کچھ حاصل کر سکیں، سو وہ بھوکے مر رہے ہیں اور پڑوسیوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو مجبور ہیں۔

انھیں متاثرین میں سے شیو وہار کی رہنے والی منیسہ نامی خاتون رو رو کر اپنا حال بیان کرتی ہیں کہ انھیں راحت کیمپ سے واپس گھر بھیج دیا گیا ہے، لیکن گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ منیسہ دو ہزار اور پانچ سو کے جلے ہوئے نوٹ دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ پیسے بیٹی کی شادی کے لیے جمع کیے تھے، لیکن دنگائیوں نے گھر بار سب جلا کر خاک کر دیا اور ہم ریلیف کیمپ کی پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے، لیکن اب کورونا وائرس کے سبب ہمیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اب ہم کریں تو کیا کریں؟ لاک ڈاؤن کے سبب گھر سے نکل نہیں سکتے اس لئے پیٹ پالنے کے لیے پڑوسیوں سے بھیک مانگنے کو مجبور ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ہمیں راشن مل بھی جائے تو پکائیں کیسے؟ ہمارے پاس نہ تو گیس ہے اور نہ تیل۔ پاس میں دہلی حکومت کا کوئی شیلٹر ہوم بھی نہیں ہے۔

یہ ہے دہلی فساد متاثرین کے حالات زندگی کی ایک معمولی سی جھلک۔ اللہ ان کے حال زار پر رحم فرمائے، غیب سے ان کی مدد کرے اور آس پاس رہنے والے لوگوں کو ان تک پہنچ کر ان کی مدد کرنے کی توفیق دے۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


قانون شکن یوگی اور ملا

  
ابو رَزِین مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری ✍️
🕯استاذ  : الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ 🕯
25 / مارچ ،2020 ،بدھ

یوگی اور مُلّا


آج رام للا کو اس کے نئے مندر میں شفٹ کرنے کے لیے  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایودھیا پہنچے اور انھوں نے مندر کا شلانیاس رکھا، ساتھ ہی کئی سادھو سنتوں کی موجودگی میں پوجا بھی کی۔

یوگی لمبا سفر طے کرکے رام مندر کے شلانیاس کے لیے ایودھیا جا سکتے ہیں، کورونا وائرس کا خطرہ نہیں ہے، لیکن ہاۓ رے مسلمان کا ضعف اعتقاد کہ اسے مسجد جانے میں وائرس کا خطرہ ہے۔

یوگی کئی سادھو سنتوں کے ساتھ مندر میں پوجا کر سکتے ہیں، وائرس کا خطرہ نہیں ہے، لیکن افسوس کہ مسلمان کو مسجد جا کر اللہ کی عبادت کرنے میں وائرس کا خطرہ ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کا مطلب وائرس کو دعوت دینا ہے، لیکن پھر بھی رام مندر کے شلانیاس کا پروگرام ملتوی نہیں کیا جاتا ہے اور یوگی اپنے مذہب میں اتنے پختہ کہ بغیر کسی ڈر کے ایودھیا گیے، تھالی اٹھا کر اچھے خاصے لوگوں کے ساتھ آگے بڑھے اور مندر کا شلانیاس کیا اور سادھو سنتوں کے ساتھ پوجا بھی کی، جیسا کہ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اللہ پر ایمان رکھنے والا مُلّا فتویٰ جاری کر رہا ہے کہ مسجد کی حاضری ساقط ہے، جماعت چھوڑی جا سکتی ہے، اور جمعہ ترک کیا جا سکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی نظر بس مسجدوں ہی پر ہے اور اس کے شکار صرف مسلمان ہی ہونے والے ہیں۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
 اللہ خیر فرمائے اور مسلمانوں کو ہدایت دے۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹